جو برف زار چیر دے ایسی کرن بھی لا
پتھر دلوں میں آج کوئی کوہ کن بھی لا
اس طرح سرسری مرا باب وفا نہ لکھ
وقت شمار زخم مرا خستہ تن بھی لا
منصف اگر بنا ہے تو سب کو گوارہ رکھ
انصاف ہے تو میرا پھٹا پیرہن بھی لا
جلنے لگے ہیں پیاس سے پھولوں کے خشک ہونٹ
ابر بہار کو ذرا سوئے چمن بھی لا
چپ چاپ خلوتوں میں پگھلنے سے فائدہ
کوئی چراغ ہے تو سر انجمن بھی لا
اتنا وہ شادماں مجھے اچھا نہیں لگا
اس گل کے دل میں داغ کی تھوڑی جلن بھی لا
زخم سفر کے درد مسلسل کا سحر توڑ
نکلا ہوا وطن سے غریب الوطن بھی لا
یہ چشم التفات ہی کافی نہیں مجھے
میرے لیے تو نرمیٔ کام و دہن بھی لا
شاہینؔ سے عزیز ہے اپنا لہو تو کیا
نعش شہید کے لیے خونیں کفن بھی لا
غزل
جو برف زار چیر دے ایسی کرن بھی لا
جاوید شاہین