EN हिंदी
جو بن سنور کے وہ اک ماہ رو نکلتا ہے | شیح شیری
jo ban-sanwar ke wo ek mah-ru nikalta hai

غزل

جو بن سنور کے وہ اک ماہ رو نکلتا ہے

عادل رشید

;

جو بن سنور کے وہ اک ماہ رو نکلتا ہے
تو ہر زبان سے بس اللہ ہو نکلتا ہے

حلال رزق کا مطلب کسان سے پوچھو
پسینہ بن کے بدن سے لہو نکلتا ہے

زمین اور مقدر کی ایک ہے فطرت
کہ جو بھی بویا وہی ہو بہو نکلتا ہے

یہ چاند رات ہی دیدار کا وسیلہ ہے
بروز عید ہی وہ خوبرو نکلتا ہے

ترے بغیر گلستاں کو کیا ہوا عادلؔ
جو گل نکلتا ہے بے رنگ و بو نکلتا ہے