جو بیٹھو سوچنے ہر زخم دل کسکتا ہے
غزل کہو تو قلم سے لہو ٹپکتا ہے
میں اب بھی روتا ہوں محرومیوں پہ بچپن کی
کھلونے دیکھ کے دل آج بھی ہمکتا ہے
فضا میں خوف ہوا بولنے نہیں دیتا
زمیں پہ آ کے پرندہ بہت چہکتا ہے
تمہارا لہجہ تو دریا ہے بہتے پانی کا
یہ آگ بن کے سمندر میں کیوں بھڑکتا ہے
دل و دماغ کے سب تار بجنے لگتے ہیں
نقاب چہرۂ فطرت سے جب سرکتا ہے
امیر شہر بنایا گیا ہے جس دن سے
ہمارے گھاؤ ستم گر بہت نمکتا ہے
چمکنے لگتے ہیں انجمؔ تمہاری یادوں کے
وہ آسمان پہ جب روشنی چھڑکتا ہے

غزل
جو بیٹھو سوچنے ہر زخم دل کسکتا ہے
فاروق انجم