جو بات حقیقت ہو بے خوف و خطر کہیے
میں اس کا نہیں قائل شبنم کو گہر کہیے
لفظوں کی حرارت سے اجسام پگھل جائیں
سنجیدہ ذرا ہو کر اشعار اگر کہیے
اپنوں نے پلائے ہیں زہراب کے گھونٹ اکثر
ہونٹوں پہ جو خشکی ہے تلخی کا اثر کہیے
بازار تصنع کے جلووں کی نمائش کو
ٹوٹے ہوئے شیشوں کا ادنیٰ سا کھنڈر کہیے
جذبات کا خوں کر دوں احساس کچل ڈالوں
زخموں سے لہو ٹپکے سو بار اگر کہیے
تخلیق اجثا یا حافظؔ کی غزل رہبرؔ
جس سے ہو بقا فن کی معراج ہنر کہیے

غزل
جو بات حقیقت ہو بے خوف و خطر کہیے
حسیب رہبر