جو بات دل میں تھی کاغذ پہ کب وہ آئی ہے
کہ اب قلم میں تو مانگے کی روشنائی ہے
یہی نہیں کہ دھواں چبھ رہا ہے آنکھوں میں
کنواں بھی سامنے ہے اور عقب میں کھائی ہے
میں اپنے جسم کے دھبے چھپائے پھرتا ہوں
مرے لباس سے مہنگی مری دھلائی ہے
جو تیرے قرب میں گزری نہ تیری فرقت میں
وہ عمر ہم نے نہ جانے کہاں گنوائی ہے
صدف ہیں یا کہ گہر جھاگ ہیں کہ ریت فقط
ہمارے واسطے کیا لے کے موج آئی ہے
غزل
جو بات دل میں تھی کاغذ پہ کب وہ آئی ہے
شریف منور