جو اپنی ہے وہ خاک دل نشیں ہی کام آئے گی
گروگے آسماں سے جب زمیں ہی کام آئے گی
یہاں سے مت اٹھا بستر کہ اس سفاک آندھی میں
یہ ٹوٹی پھوٹی دیوار یقیں ہی کام آئے گی
اٹھا رکھا تھا صحرا سر پہ تم نے کون مانے گا
جھٹکنا مت کہ یہ گرد جبیں ہی کام آئے گی
وہ دن آئے گا جب سارے سمندر سوکھ جائیں گے
میاں اندر کی جوئے آتشیں ہی کام آئے گی
کوئی آنکھوں کے شعلے پونچھنے والا نہیں ہوگا
ظفرؔ صاحب یہ گیلی آستیں ہی کام آئے گی
غزل
جو اپنی ہے وہ خاک دل نشیں ہی کام آئے گی
ظفر گورکھپوری