EN हिंदी
جو اپنی چشم تر سے دل کا پارہ چھوڑ جاتا ہے | شیح شیری
jo apni chashm-e-tar se dil ka para chhoD jata hai

غزل

جو اپنی چشم تر سے دل کا پارہ چھوڑ جاتا ہے

شارب مورانوی

;

جو اپنی چشم تر سے دل کا پارہ چھوڑ جاتا ہے
وہی محفل میں غم کا استعارہ چھوڑ جاتا ہے

میاں غربت میں ہر اک بے سہارا چھوڑ جاتا ہے
اندھیرا ہو تو سایہ بھی ہمارا چھوڑ جاتا ہے

جدھر جلوے بکھرتے ہیں ادھر کرتا نہیں نظریں
شکست خواب کے ڈر سے نظارہ چھوڑ جاتا ہے

مجھے سیراب کرتا جا اگر تو اک سمندر ہے
فقط پیاسے پہ کیوں الزام سارا چھوڑ جاتا ہے

ہر اک ہے محو حیرت وہ کرشمہ ساز ہے ایسا
سر محفل جو اک رنگیں نظارہ چھوڑ جاتا ہے

میں اکثر کشتیٔ موج بلا پر سیر کرتا ہوں
مجھے ساحل پہ اس کا اک اشارہ چھوڑ جاتا ہے

عجب ہے میرا محسن بھی کہ جاتے وقت وہ اکثر
مری پلکوں پہ اک روشن ستارہ چھوڑ جاتا ہے