جو اپنی چشم تر سے دل کا پارہ چھوڑ جاتا ہے
وہی محفل میں غم کا استعارہ چھوڑ جاتا ہے
میاں غربت میں ہر اک بے سہارا چھوڑ جاتا ہے
اندھیرا ہو تو سایہ بھی ہمارا چھوڑ جاتا ہے
جدھر جلوے بکھرتے ہیں ادھر کرتا نہیں نظریں
شکست خواب کے ڈر سے نظارہ چھوڑ جاتا ہے
مجھے سیراب کرتا جا اگر تو اک سمندر ہے
فقط پیاسے پہ کیوں الزام سارا چھوڑ جاتا ہے
ہر اک ہے محو حیرت وہ کرشمہ ساز ہے ایسا
سر محفل جو اک رنگیں نظارہ چھوڑ جاتا ہے
میں اکثر کشتیٔ موج بلا پر سیر کرتا ہوں
مجھے ساحل پہ اس کا اک اشارہ چھوڑ جاتا ہے
عجب ہے میرا محسن بھی کہ جاتے وقت وہ اکثر
مری پلکوں پہ اک روشن ستارہ چھوڑ جاتا ہے
غزل
جو اپنی چشم تر سے دل کا پارہ چھوڑ جاتا ہے
شارب مورانوی