جو اپنے گھر کو کعبہ مانتے ہیں
پس دیوار پھر کیوں جھانکتے ہیں
نہیں تیرے جنوں پر شک نہیں ہے
تری عادت مگر پہچانتے ہیں
یہ آزردہ جبیں ماضی کے باسی
نئے زخموں پہ یادیں باندھتے ہیں
ترے اہل یقیں سجدوں میں جھک کر
مرے کافر ترا غم مانگتے ہیں
ردائے شب تو ابر تر سے بھیگی
چلو اک دھیان سر پر تانتے ہیں
ستارے ضبط کے موتی حذر کے
قبائے آرزو پر ٹانکتے ہیں
تری کھوٹی ہنسی پر رونے والے
تری آنکھوں کے موسم جانتے ہیں
غزل
جو اپنے گھر کو کعبہ مانتے ہیں
سیماب ظفر