EN हिंदी
جو اب بھی نہ تکلیف فرمائیے گا | شیح شیری
jo ab bhi na taklif farmaiyega

غزل

جو اب بھی نہ تکلیف فرمائیے گا

جگر مراد آبادی

;

جو اب بھی نہ تکلیف فرمائیے گا
تو بس ہاتھ ملتے ہی رہ جائیے گا

نگاہوں سے چھپ کر کہاں جائیے گا
جہاں جائیے گا ہمیں پائیے گا

مرا جب برا حال سن پائیے گا
خراماں خراماں چلے آئیے گا

مٹا کر ہمیں آپ پچھتائیے گا
کمی کوئی محسوس فرمائیے گا

نہیں کھیل ناصح جنوں کی حقیقت
سمجھ لیجئے گا تو سمجھائیے گا

ہمیں بھی یہ اب دیکھنا ہے کہ ہم پر
کہاں تک توجہ نہ فرمائیے گا

ستم عشق میں آپ آساں نہ سمجھیں
تڑپ جائیے گا جو تڑپائیے گا

یہ دل ہے اسے دل ہی بس رہنے دیجے
کرم کیجئے گا تو پچھتائیے گا

کہیں چپ رہی ہے زبان محبت
نہ فرمائیے گا تو فرمائیے گا

بھلانا ہمارا مبارک مبارک
مگر شرط یہ ہے نہ یاد آئیے گا

ہمیں بھی نہ اب چین آئے گا جب تک
ان آنکھوں میں آنسو نہ بھر لائیے گا

ترا جذبۂ شوق ہے بے حقیقت
ذرا پھر تو ارشاد فرمائیے گا

ہمیں جب نہ ہوں گے تو کیا رنگ محفل
کسے دیکھ کر آپ شرمایئے گا

یہ مانا کہ دے کر ہمیں رنج فرقت
مداوائے فرقت نہ فرمائیے گا

محبت محبت ہی رہتی ہے لیکن
کہاں تک طبیعت کو بہلایئے گا

نہ ہوگا ہمارا ہی آغوش خالی
کچھ اپنا بھی پہلو تہی پائیے گا

جنوں کی جگرؔ کوئی حد بھی ہے آخر
کہاں تک کسی پر ستم ڈھایئے گا