جو آئے وہ حساب آب و دانہ کرنے والے تھے
گئے وہ لوگ جو کار زمانہ کرنے والے تھے
اڑانے کے لیے کچھ کم نہیں ہے خاک گھر میں بھی
وہ موسم ہی نہیں ہیں جو دوانہ کرنے والے تھے
مری گم گشتگی میرے لیے چھت بن گئی ورنہ
یہ دنیا والے مجھ کو بے ٹھکانہ کرنے والے تھے
نہ دیتے سارے منظر عکس ہی تھوڑے سے دے دیتے
ہم آوارہ کہاں تزئین خانہ کرنے والے تھے
سمندر لے گیا ہم سے وہ ساری سیپیاں واپس
جنہیں ہم جمع کر کے اک خزانہ کرنے والے تھے
ظفرؔ بے خانماں اپنے کو خود ہی کر لیا تم نے
یہ کار خیر تو اہل زمانہ کرنے والے تھے
غزل
جو آئے وہ حساب آب و دانہ کرنے والے تھے
ظفر گورکھپوری