جئے خود کے لیے گر ہم مزا تب کیا ہے جینے میں
بہے اوروں کی خاطر جو ہے خوشبو اس پسینے میں
ہے جن کے بازوؤں میں دم وہ دریا پار کر لیں گے
بہت ممکن ہے ڈوبیں وہ جو بیٹھے ہیں سفینے میں
یہ کیسا دور آیا ہے سروں پر تاج ہے ان کے
نہیں معلوم جن کو فرق پتھر اور نگینے میں
ہمارے دوستوں کی مسکراہٹ اک چھلاوا ہے
ہے پایہ زہر اکثر خوبصورت آبگینے میں
گئے تم دور جب سے دل یہ کہتا ہے کرو توبہ
مزہ آتا نہیں خود ہی اٹھا کر جام پینے میں
ستم سہنے کی عادت اس قدر ہم کو پڑی نیرجؔ
کہیں کچھ ہو، نہیں اب کھولتا ہے خون سینے میں
غزل
جئے خود کے لیے گر ہم مزا تب کیا ہے جینے میں
نیرج گوسوامی