جیے جا رہا ہوں تجھے یاد کر کے
تصور کی دنیا کو آباد کر کے
پشیماں ہیں ہم عرض روداد کر کے
کرم ہی کیا تم نے بیداد کر کے
مجھے اس کی مطلق شکایت نہیں ہے
ستم پر ستم لاؤ ایجاد کر کے
کہاں رہیے اپنوں سے کر کے کنارا
ملا کیا ہے غیروں سے فریاد کر کے
ہمیں واسطہ ایسے صیاد سے ہے
کہ جو صید رکھتا ہے آزاد کر کے
برا کر رہے ہیں ترا نام لے کر
خطا کر رہے ہیں تجھے یاد کر کے
محبت سی شے اس نے مجھ کو عطا کی
کہ خوش خوش چلوں عمر برباد کر کے
جو چاہو شمار اپنا اہل سخن میں
پڑھو شعر رہبرؔ کو استاد کر کے
غزل
جیے جا رہا ہوں تجھے یاد کر کے
جتیندر موہن سنہا رہبر