جتنی بری کہی جاتی ہے اتنی بری نہیں ہے دنیا
بچوں کے اسکول میں شاید تم سے ملی نہیں ہے دنیا
چار گھروں کے ایک محلے کے باہر بھی ہے آبادی
جیسی تمہیں دکھائی دی ہے سب کی وہی نہیں ہے دنیا
گھر میں ہی مت اسے سجاؤ ادھر ادھر بھی لے کے جاؤ
یوں لگتا ہے جیسے تم سے اب تک کھلی نہیں ہے دنیا
بھاگ رہی ہے گیند کے پیچھے جاگ رہی ہے چاند کے نیچے
شور بھرے کالے نعروں سے اب تک ڈری نہیں ہے دنیا
غزل
جتنی بری کہی جاتی ہے اتنی بری نہیں ہے دنیا
ندا فاضلی