جتنے پانی میں کوئی ڈوب کے مر سکتا ہے
اتنا پانی تو مری اوک میں بھر سکتا ہے
یہ تو میں روز کنارے پہ کھڑا سوچتا ہوں
پیاس بڑھ سکتی ہے دریا بھی اتر سکتا ہے
اک دیا اور تو کچھ کر نہیں سکتا لیکن
شب کی دیوار میں دروازہ تو کر سکتا ہے
حسن ترتیب سے رکھی ہوئی یادوں کی طرف
دیکھنے والا کسی روز بکھر سکتا ہے
اس کا تتلی سا بدن دور سے دیکھا جائے
وہ کسی ہاتھ میں آتے ہوئے مر سکتا ہے
تم ذرا سوچ کے اس شخص پہ تکیہ کرنا
وہ فرشتہ نہیں وعدے سے مکر سکتا ہے
دل کو آنکھوں سے الجھنے نہیں دیتا عامیؔ
ورنہ دریا سے سمندر بھی گزر سکتا ہے

غزل
جتنے پانی میں کوئی ڈوب کے مر سکتا ہے
عمران عامی