جتنا تھا جینا جی لیے مر جانا چاہیے
حد ہو گئی تو حد سے گزر جانا چاہیے
ٹھہرے ہوئے ہیں کب سے یہ مہمان کی طرح
آنکھوں سے آنسوؤں کو بکھر جانا چاہیے
یہ کیا کہ روز قصے میں تم شیر ہی بنو
یارو کبھی کبھار تو ڈر جانا چاہیے
اس کی گلی میں جور و جفا عام ہے بہت
اس کی گلی میں یار مگر جانا چاہیے
اب کے تو معرکہ ہے بہت سخت زیست کا
اب کے تو معرکے میں یہ سر جانا چاہیے
چل تو رہے ہیں لوگ یہاں قافلے کے ساتھ
لیکن پتہ نہیں ہے کدھر جانا چاہیے
یوں تو مشاعروں سے یہ جی بھر گیا مگر
کہنا عبیدؔ کا ہے قمرؔ جانا چاہیے

غزل
جتنا تھا جینا جی لیے مر جانا چاہیے
قمر صدیقی