جتنا برہم وقت تھا اتنے ہی خود سر ہم بھی تھے
موج طوفاں تھا اگر پل پل تو پتھر ہم بھی تھے
کاش کوئی اک اچٹتی سی نظر ہی ڈالتا
چور تھے زخموں سے لیکن ایک منظر ہم بھی تھے
گر وبال دوش تھا سر ہاتھ میں تیشہ بھی تھا
اک طرف سے تو نصیبے کے سکندر ہم بھی تھے
خود شناسی کا بھلا ہو راکھ کی چٹکی ہیں آج
ورنہ اک رخشندہ و تابندہ گوہر ہم بھی تھے
سطح بیں تھے لوگ کیا پاتے ہماری وسعتیں
جھانکتا دل میں کوئی تو اک سمندر ہم بھی تھے
چڑھتے سورج کی پرستش گو تھا دنیا کا اصول
ہم کسی کو پوجتے کیسے کہ خاورؔ ہم بھی تھے

غزل
جتنا برہم وقت تھا اتنے ہی خود سر ہم بھی تھے
خاور رضوی