جسم روپوش تھے خاموش دعاؤں کی طرح
سائے پھرتے رہے سڑکوں پہ وباؤں کی طرح
شاخ پر پھول کھلا میری پہنچ سے باہر
بیل شرماتی ہے تیری ہی اداؤں کی طرح
درد و غم ڈالتے رہتے ہیں مرے دل پہ کمند
یادیں بھی لپٹی ہیں برگد کی جٹاؤں کی طرح
شام کے وقت فضاؤں میں یہ اڑتے پنچھی
گشت کرتے ہیں خلاؤں میں صداؤں کی طرح
ہم تو مٹی کی طرح سب سے ملے اٹھ اٹھ کر
ہم سے ملتے ہیں مگر لوگ خداؤں کی طرح
غزل
جسم روپوش تھے خاموش دعاؤں کی طرح
محمود عشقی