جسم پر باقی یہ سر ہے کیا کروں
دست قاتل بے ہنر ہے کیا کروں
چاہتا ہوں پھونک دوں اس شہر کو
شہر میں ان کا بھی گھر ہے کیا کروں
وہ تو سو سو مرتبہ چاہیں مجھے
میری چاہت میں کسر ہے کیا کروں
پاؤں میں زنجیر کانٹے آبلے
اور پھر حکم سفر ہے کیا کروں
کیفؔ کا دل کیفؔ کا دل ہے مگر
وہ نظر پھر وہ نظر ہے کیا کروں
کیفؔ میں ہوں ایک نورانی کتاب
پڑھنے والا کم نظر ہے کیا کروں
غزل
جسم پر باقی یہ سر ہے کیا کروں
کیف بھوپالی