EN हिंदी
جسم و جاں کی بستی میں سلسلے نہیں ملتے | شیح شیری
jism-o-jaan ki basti mein silsile nahin milte

غزل

جسم و جاں کی بستی میں سلسلے نہیں ملتے

عفت زریں

;

جسم و جاں کی بستی میں سلسلے نہیں ملتے
اب کسی بھی مرکز سے دائرے نہیں ملتے

دو قدم بچھڑنے سے قافلے نہیں ملتے
منزلیں تو ملتی ہیں راستے نہیں ملتے

بارہا تراشا ہے ہم نے آپ کا چہرہ
آپ کو نہ جانے کیوں آئنہ نہیں ملتے

وقت کی کمی کہہ کر جہل کو چھپاتے ہیں
آج کل کتابوں میں حاشیے نہیں ملتے

آج بھی زمانے میں آدمی کرشمہ ہیں
شعبدے تو ملتے ہیں معجزے نہیں ملتے

زندگی کا ہر لمحہ آرزو کا دشمن ہے
حادثوں کی خواہش میں حادثے نہیں ملتے

آج قتل کرنا بھی بن گیا ہے فن زریںؔ
قتل کرنے والوں کے کچھ پتے نہیں ملتے