جسم میں خوں کی روانی کا مزہ آئے گا
عشق ہوتے ہی جوانی کا مزہ آئے گا
جوش گفتار میں کچھ اور بڑھا لو اپنے
تب ہی کچھ شعلہ بیانی کا مزہ آئے گا
آج ہم دونوں نہائیں گے بڑی شدت سے
آج برسات کے پانی کا مزہ آئے گا
بارشیں وقت پہ کھیتوں کو ہرا کر دیں تو
سب کسانوں کو کسانی کا مزہ آئے گا
آج تو موڈ ہے محفل بھی ہے محسنؔ صاحب
آج انگور کے پانی کا مزہ آئے گا
غزل
جسم میں خوں کی روانی کا مزہ آئے گا
محسن آفتاب کیلاپوری