جسم میں گونجتا ہے روح پہ لکھا دکھ ہے
تو مری آنکھ سے بہتا ہوا پہلا دکھ ہے
کیا کروں بیچ بھی سکتا نہیں گنجینۂ زخم
کیا کروں بانٹ بھی سکتا نہیں ایسا دکھ ہے
یہ تب و تاب زمانے کی جو ہے نا یارو
کیجیے غور تو لگتا ہے کہ سارا دکھ ہے
تم مرے دکھ کے تناسب کو سمجھتے کب ہو
جتنی خوشیاں ہیں تمہاری مرا اتنا دکھ ہے
ایسا لگتا ہے مرے ساتھ نہیں کچھ بھی اور
ایسا لگتا ہے مرے ساتھ ہمیشہ دکھ ہے
مجھ سے مت آنکھ ملاؤ کہ مری آنکھوں میں
شہر کی زرد گھٹن دشت سا پیاسا دکھ ہے
لے گئے لوگ وہ دریائے جواں اپنے ساتھ
اور مرے ہاتھ جو آیا ہے وہ صحرا دکھ ہے
کیا بتاؤں کہ لیے پھرتا ہوں دکھ کتنے قدیم
تم سمجھتی ہو فقط مجھ کو تمہارا دکھ ہے
اس کے لہجے میں تھکن ہے نہ ہی آثار مرگ
اس کی آنکھوں میں مگر سب سے انوکھا دکھ ہے
ہم کسی شخص کے دکھ سے نہیں ملتے حیدرؔ
جو زمانے سے الگ ہے وہ ہمارا دکھ ہے
غزل
جسم میں گونجتا ہے روح پہ لکھا دکھ ہے
فقیہہ حیدر