جسم کو جینے کی آزادی دیتی ہیں
سانسیں ہر پل ہی قربانی دیتی ہیں
راتیں ساری کروٹ میں ہی بیت رہیں
یادیں بھی کتنی بے چینی دیتی ہیں
جو راہیں خود میں ہی بے منزل سی ہوں
ایسی راہیں ناکامی ہی دیتی ہیں
کیسے بھی پر مجھ کو کچھ سپنے تو دیں
آنکھیں کیا کیول بینائی دیتی ہیں
میتؔ مجھے اکثر راتوں میں لگتا ہے
روحیں مجھ کو آوازیں سی دیتی ہیں
غزل
جسم کو جینے کی آزادی دیتی ہیں
امت شرما میت