جسم کی ریت بھی مٹھی سے پھسل جائے گی
موت جب روح لیے گھر سے نکل جائے گی
صبح آئے گی جنازے میں لیے سورج کو
یاد ماضی میں اگر رات پگھل جائے گی
اگ کے بس میں نہیں اپنی حفاظت کرنا
تو فقط موم جلا آگ بھی جل جائے گی
خانۂ دل میں بسی چشم لہو مانگیں ہے
سوچتا تھا کہ کھلونے سے بہل جائے گی
شام جب لوٹ گئی چھوڑ کے تنہا تجھ کو
تا مجھے چھوڑ کے اب رات بھی ڈھل جائے گی
اشک نکلے گا دھواں بن کے اسی محفل سے
شمع جب کود کے اس آگ میں جل جائے گی
پاؤں پھسلا تو گرے گی وہ کسی دلدل میں
زندگی موت نہیں ہے کہ سنبھل جائے گی

غزل
جسم کی ریت بھی مٹھی سے پھسل جائے گی
فیض جونپوری