جسم کے نیزے پر جو رکھا ہے
اس مرے سر میں جانے کیا کیا ہے
بت بنایا مرے ہنر نے مجھے
میرے ہاتھوں نے مجھ کو توڑا ہے
بستیاں اجڑی ہیں تو سناٹا
میری آواز میں سمایا ہے
میں بھی بے جڑ کا پیڑ ہوں شاید
مجھ کو بھی ڈر ہوا سے لگتا ہے
شہر میں کچھ عمارتوں کے سوا
اب مرا کون ملنے والا ہے
کہنے سننے کو کچھ نہیں باقی
ملنا جلنا عجب سا لگتا ہے
غزل
جسم کے نیزے پر جو رکھا ہے
منظر سلیم