جسم کے بیاباں میں درد کی دعا مانگیں
پھر کسی مسافر سے روشنی ذرا مانگیں
کھو گئے کتابوں میں تتلیوں کے بال و پر
سوچ میں ہیں اب بچے کیا چھپائیں کیا مانگیں
زعفرانی کھیتوں میں اب مکان اگتے ہیں
کس طرح زمینوں سے دل کا رابطہ مانگیں
ہم بھی ہو گئے شامل مصنوعی تجارت میں
ہم کہ چہرہ ساماں تھے اب کے آئنا مانگیں
ورنہ علم ناموں کا اٹھ نہ جائے دھرتی سے
آدمی پھلے پھولے آؤ یہ دعا مانگیں
اس سے پیشتر کہ یہ رات موند لے آنکھیں
ننھے منے جگنو سے روشنی ذرا مانگیں
وہ صدائیں دیتا ہے آخری جزیرے سے
اور ہم نگاہوں کا حسن ابتدا مانگیں
کس کے سامنے رکھیے کھول کر رضا اپنی
اور کس سے جادو کا بولتا دیا مانگیں
غزل
جسم کے بیاباں میں درد کی دعا مانگیں
احمد شناس