EN हिंदी
جسم کا بوجھ اٹھائے ہوئے چلتے رہیے | شیح شیری
jism ka bojh uThae hue chalte rahiye

غزل

جسم کا بوجھ اٹھائے ہوئے چلتے رہیے

معراج فیض آبادی

;

جسم کا بوجھ اٹھائے ہوئے چلتے رہیے
دھوپ میں برف کی مانند پگھلتے رہیے

یہ تبسم تو ہے چہروں کی سجاوٹ کے لیے
ورنہ احساس وہ دوزخ ہے کہ جلتے رہیے

اب تھکن پاؤں کی زنجیر بنی جاتی ہے
راہ کا خوف یہ کہتا ہے کہ چلتے رہیے

زندگی بھیک بھی دیتی ہے تو قیمت لے کر
روز فریاد کا انداز بدلتے رہیے