EN हिंदी
جسم ہی پامال ہو جائے تو سر کیا کیجئے | شیح شیری
jism hi pamal ho jae to sar kya kijiye

غزل

جسم ہی پامال ہو جائے تو سر کیا کیجئے

اعزاز افصل

;

جسم ہی پامال ہو جائے تو سر کیا کیجئے
جان تو ہم کو بھی پیاری ہے مگر کیا کیجئے

دیکھتے رہیے سحر کے خواب جھوٹے ہی سہی
مشغلہ یہ بھی نہ ہو تو رات بھر کیا کیجئے

گفتگو سے رفتہ رفتہ خامشی تک آ گئے
اور حرف مدعا کو مختصر کیا کیجئے

ہر نظر طرفہ تماشا ہر قدم منزل نئی
سیر سے فرصت نہیں ملتی سفر کیا کیجئے

کون جانے کتنے بازو نذر طوفاں ہو گئے
پھول پھل گنیے شمار بال و پر کیا کیجئے

جذبۂ آباد کاری لائق تحسیں مگر
پتھروں کے شہر میں شیشوں کے گھر کیا کیجئے

سخت جانی اپنی قسمت زنگ خنجر کا نصیب
کشمکش میں جان ہے افضلؔ مگر کیا کیجئے