جسے سناؤ گے پہلے ہی سن چکا ہوگا
مجھے یقین ہے یہ ایسا واقعہ ہوگا
یہاں تو اب بھی ہیں تنہائیاں جواب طلب
وہ پہلے پہل یہاں کس طرح رہا ہوگا
جو آج تک ہوا کچھ کچھ سمجھ میں آتا ہے
کوئی بتائے یہاں اس کے بعد کیا ہوگا
خلا میں پائیں گے تارا جو دور تک نکلیں
پھر اس کے بعد بہت دور تک خلا ہوگا
سمجھتا ہوں میں اگر سب علامتیں اس کی
تو پھر وہ میری طرح سے ہی سوچتا ہوگا
قدیم کر گئی خواہش جدید ہونے کی
کسے خبر تھی یہاں تک وہ دائرہ ہوگا
شکستہ پائی سے ہوتی ہیں بستیاں آباد
جو اب قبیلہ ہوا پہلے قافلہ ہوگا
پسند ہوں گی ابھی تک کہانیاں اس کو
وہ میرے جیسا کوئی اب بھی ڈھونڈتا ہوگا
فضا زمین کی تھی اتنی اجنبی کہ ملالؔ
ستارہ وار کہیں راکھ ہو گیا ہوگا
غزل
جسے سناؤ گے پہلے ہی سن چکا ہوگا
صغیر ملال