جسے میں نے صبح سمجھ لیا کہیں یہ بھی شام الم نہ ہو
مرے سر کی آپ نے کھائی جو کہیں یہ بھی جھوٹی قسم نہ ہو
وہ جو مسکرائے ہیں بے سبب یہ کرم بھی ان کا ستم نہ ہو
میں نے پیار جس کو سمجھ لیا کہیں یہ بھی میرا بھرم نہ ہو
تو جو حسب وعدہ نہ آ سکا تو بہانا ایسا نیا بنا
کہ ترا وقار بھی کم نہ ہو مرا اعتبار بھی کم نہ ہو
جسے دیکھ کر میں ٹھٹھک گئی اسے اور غور سے دیکھ لوں
یہ چمک رہا ہے جو آئنہ کہیں تیرا نقش قدم نہ ہو
مرے منہ سے نکلا یہ برملا تجھے شاد کامراں رکھے خدا
تو پیام لایا ہے یار کا تری عمر خضر سے کم نہ ہو
غزل
جسے میں نے صبح سمجھ لیا کہیں یہ بھی شام الم نہ ہو
ممتاز نسیم