جسے ہم نے کبھی دیکھا نہیں ہے
اسے کیا جانے کیا ہے کیا نہیں ہے
تری آنکھوں سے دل کی وادیوں تک
کوئی بھی راہ رو پہنچا نہیں ہے
جو پیاسی روح کو سیراب کر دے
وہ بادل آج تک برسا نہیں ہے
شجر کے ہو گئے کیوں زرد چہرے
کوئی پتہ ابھی سوکھا نہیں ہے
مری تشنہ لبی پہ ہنسنے والو
کھڑا ہوں میں جہاں صحرا نہیں ہے
ہوئے ہیں لوگ پیاسے قتل جب سے
کسی دریا پہ اب پہرا نہیں ہے
تکبر کی چٹانیں ہیں یہ احسنؔ
جو آیا ہے یہاں ٹھہرا نہیں ہے
غزل
جسے ہم نے کبھی دیکھا نہیں ہے
نواب احسن