جسے دیکھتے ہی خماری لگے
اسے عمر ساری ہماری لگے
اجالا سا ہے اس کے چاروں طرف
وہ نازک بدن پاؤں بھاری لگے
وہ سسرال سے آئی ہے مائکے
اسے جتنا دیکھو وہ پیاری لگے
حسین صورتیں اور بھی ہیں مگر
وہ سب سیکڑوں میں ہزاری لگے
چلو اس طرح سے سجائیں اسے
یہ دنیا ہماری تمہاری لگے
اسے دیکھنا شعر گوئی کا فن
اسے سوچنا دین داری لگے
غزل
جسے دیکھتے ہی خماری لگے
ندا فاضلی