EN हिंदी
جس سے بیزار رہے تھے وہی در کیا کچھ ہے | شیح شیری
jis se bezar rahe the wahi dar kya kuchh hai

غزل

جس سے بیزار رہے تھے وہی در کیا کچھ ہے

شاذ تمکنت

;

جس سے بیزار رہے تھے وہی در کیا کچھ ہے
گھر کی دوری نے یہ سمجھایا کہ گھر کیا کچھ ہے

شکر کرتا ہوں خدا نے مجھے محسود کیا
اب میں سمجھا کہ مرے پاس ہنر کیا کچھ ہے

رات بھر جاگ کے کاٹے تو کوئی میری طرح
خود بہ خود سمجھے گا وہ پچھلا پہر کیا کچھ ہے

کوئی جھونکا نہیں سنکا چمن رفتہ سے
کوئی سن گن نہیں یاروں کی خبر کیا کچھ ہے

نگراں سوئے زمیں دیدۂ افلاک ہے آج
جادۂ وقت پہ مٹی کا سفر کیا کچھ ہے

جیسے قسمت کی لکیروں پہ ہمیں چلنا ہے
کون سمجھے گا تیری راہ گزر کیا کچھ ہے

ورق گل پہ ہے تحریر سی دونوں جانب
ہم نے کیا دیکھا ادھر جانے ادھر کیا کچھ ہے

چل پڑے صبح ازل شاذؔ اشارے پہ ترے
ہم نے سوچا ہی نہیں رخت سفر کیا کچھ ہے