جس روز سے اپنا مجھے ادراک ہوا ہے
ہر لمحہ مری زیست کا سفاک ہوا ہے
گھر سے تو نکل آئے ہو سوچا نہیں کچھ بھی
اب سوچ رہے ہو جو بدن چاک ہوا ہے
تہذیب ہی باقی ہے نہ اب شرم و حیا کچھ
کس درجہ اب انسان یہ بے باک ہوا ہے
گزرا ہے کوئی سانحہ بستی میں ہماری
ہر شخص کا چہرہ یہاں غم ناک ہوا ہے
افتاد زمانے کی پڑی ایسی ہے مجھ پر
تھا جو بھی اثاثہ خس و خاشاک ہوا ہے
آندھی تھی وہ نفرت کی کہ انساں تھا اندھا
ہیں شعلے اٹھے ایسے کہ سب خاک ہوا ہے
اسلاف کے اقدار کو اپنایا ہے جس نے
پستی میں رہا پھر بھی وہ افلاک ہوا ہے
رکھا ہے قدم جس نے سیاست کے سفر پر
وہ شخص ظفرؔ صاحب املاک ہوا ہے
غزل
جس روز سے اپنا مجھے ادراک ہوا ہے
ظفر اقبال ظفر