جس پہ تری شمشیر نہیں ہے
اس کی کوئی توقیر نہیں ہے
اس نے یہ کہہ کر پھیر دیا خط
خون سے کیوں تحریر نہیں ہے
زخم جگر میں جھانک کے دیکھو
کیا یہ تمہارا تیر نہیں ہے
زخم لگے ہیں کھلنے گلچیں
یہ تو تری جاگیر نہیں ہے
شہر میں یوم امن ہے واعظ
آج تری تقریر نہیں ہے
اودی گھٹا تو واپس ہو جا
آج کوئی تدبیر نہیں ہے
شہر محبت کا یوں اجڑا
دور تلک تعمیر نہیں ہے
اتنی حیا کیوں آئینے سے
یہ تو مری تصویر نہیں ہے
غزل
جس پہ تری شمشیر نہیں ہے
کیف بھوپالی