EN हिंदी
جس نے چھپا کے بھوک کو پتھر میں رکھ لیا | شیح شیری
jis ne chhupa ke bhuk ko patthar mein rakh liya

غزل

جس نے چھپا کے بھوک کو پتھر میں رکھ لیا

فہیم جوگاپوری

;

جس نے چھپا کے بھوک کو پتھر میں رکھ لیا
دنیا کو اس فقیر نے ٹھوکر میں رکھ لیا

اہل جنوں کو اپنے جنوں سے وہ عشق تھا
دل نے جگہ نہ دی تو اسے سر میں رکھ لیا

ننھا کوئی پرند اڑا جب تو یوں لگا
ہمت نے آسمان کو شہ پر میں رکھ لیا

آنکھوں نے آنسوؤں کو عجب اہتمام سے
موتی بنا کے دل کے سمندر میں رکھ لیا

ہم نے تمہاری دید کے لمحے سمیٹ کر
پھر سے پرانے خواب کی چادر میں رکھ لیا

کیا ڈر سما گیا کہ ہمارے حریف نے
تم جیسے شہسوار کو لشکر میں رکھ لیا

کچھ بات تھی جو ہم نے ستاروں کے درمیاں
ان آنسوؤں کو رات کے منظر میں رکھ لیا

آنکھیں تھکیں تو دل نے سہارا دیا فہیمؔ
ہم نے کسی کا عکس نئے گھر میں رکھ لیا