EN हिंदी
جس نے بھی داستاں لکھی ہوگی | شیح شیری
jis ne bhi dastan likhi hogi

غزل

جس نے بھی داستاں لکھی ہوگی

شائستہ یوسف

;

جس نے بھی داستاں لکھی ہوگی
کچھ تو سچائی بھی رہی ہوگی

کیوں مرے درد کو یقیں ہے بہت
تیری آنکھوں میں بھی نمی ہوگی

کیا کروں دوسرے جنم کا میں
زندگی کل بھی اجنبی ہوگی

کتنی اندھی ہے آرزو میری
کیا کبھی اس میں روشنی ہوگی

قید سے ہو چکی ہوں پھر آزاد
جانے کس نے گواہی دی ہوگی