جس نے بنایا ہر آئینہ میں ہی تھا
اور پھر اس میں اپنا تماشہ میں ہی تھا
میرے قتل کا جشن منایا دنیا نے
پھر دنیا نے دیکھا زندہ میں ہی تھا
محل سرا کے سب چہروں کو جانتا ہوں
جس سے گئے تھے دل تک راستہ میں ہی تھا
دیکھ لیا زندانوں کی دیواروں نے
ان سے قد میں بلند و بالا میں ہی تھا
میں ہی نہیں تو کون سے لوگ اور کیسے لوگ
کون سی دنیا صاحب دنیا میں ہی تھا
ملکوں ملکوں پھر کر خالی ہاتھ میاں
لوٹنے والا وہ شہزادہ میں ہی تھا
دنیا تو نے خالی ہاتھ مجھے جانا
ظالم تیرا سب سرمایہ میں ہی تھا
میرا سراغ لگانے والے جانتے ہیں
جب تک تھا میں اپنا حوالہ میں ہی تھا
غزل
جس نے بنایا ہر آئینہ میں ہی تھا
رضی اختر شوق