جس میں اک صحرا تھا اک دیوانہ تھا
سوچ رہا ہوں وہ کس کا افسانہ تھا
خواب تو مجھ کو میلے تک لے آئے تھے
نیند کے باہر تو وہ ہی ویرانہ تھا
چادر کے باہر بیداری بیٹھی تھی
ایسے میں کیا پاؤں مجھے پھیلانا تھا
ایک اکیلی نظم تھی پورے صفحے پر
نظم تھا باقی پر جو وہ ویرانہ تھا
رات بنا دیتی تھی اک پل یادوں کا
ماضی تک یوں میرا آنا جانا تھا
آتشؔ تجھ کو ناز بہت تھا سورج پر
شام کے ڈھلتے ہی جس کو بجھ جانا تھا
غزل
جس میں اک صحرا تھا اک دیوانہ تھا
سوپنل تیواری