EN हिंदी
جس کو طے کر نہ سکے آدمی صحرا ہے وہی | شیح شیری
jis ko tai kar na sake aadmi sahra hai wahi

غزل

جس کو طے کر نہ سکے آدمی صحرا ہے وہی

صغیر ملال

;

جس کو طے کر نہ سکے آدمی صحرا ہے وہی
اور آخر مرے رستے میں بھی آیا ہے وہی

یہ الگ بات کہ ہم رات کو ہی دیکھ سکیں
ورنہ دن کو بھی ستاروں کا تماشا ہے وہی

اپنے موسم میں پسند آیا ہے کوئی چہرہ
ورنہ موسم تو بدلتے رہے چہرہ ہے وہی

ایک لمحے میں زمانہ ہوا تخلیق ملالؔ
وہی لمحہ ہے یہاں اور زمانہ ہے وہی