جس کو قریب پایا اسی سے لپٹ گئے
سورج ڈھلا تو لوگ قبیلوں میں بٹ گئے
وہ گل پرست جن پہ بہاروں کو ناز تھا
آئی خزاں تو پائے خزاں سے لپٹ گئے
کس کس کی میں ہجوم میں آنکھیں نکالتا
اچھا ہوا کہ آپ دریچے سے ہٹ گئے
جو قہقہے کی جاں سے زیادہ عزیز تھے
زندہ دلی کے نام پہ کل وہ بھی بٹ گئے
ٹھٹھرے ہوئے بدن کو حرارت نہ مل سکی
چھت پر چڑھے تو دھوپ کے سائے سمٹ گئے
جن حوصلوں پہ کوہ گراں کا گمان تھا
آندھی چلی تو سیکڑوں حصوں میں بٹ گئے
غزل
جس کو قریب پایا اسی سے لپٹ گئے
سلطان اختر