EN हिंदी
جس کو پاس اس نے بٹھایا ایک دن | شیح شیری
jis ko pas usne biThaya ek din

غزل

جس کو پاس اس نے بٹھایا ایک دن

کشن کمار وقار

;

جس کو پاس اس نے بٹھایا ایک دن
اس کو دنیا سے اٹھایا ایک دن

وصل کی شب دیکھتے اس ماہ کو
سال میں بھی وہ نہ آیا ایک دن

صبح نومیدی ہماری شب کی ہے
عمر گزری وہ نہ آیا ایک دن

کام میں میرے ہمیشہ یار نے
ایک ساعت کا لگایا ایک دن

مثل برق اک شب ہنسایا آپ نے
ابر کی صورت رلایا ایک دن

یاد زلف و رخ میں بھولے خواب و خور
ایک شب سوئے نہ کھایا ایک دن

وہ تپ لرزہ کا دورہ ہو گیا
ایک دن آیا نہ آیا ایک دن

یاد جس خورشید رو کی ہے وقارؔ
بھول کر بھی وہ نہ آیا ایک دن