جس کو جانا تھا کل تک خدا کی طرح
آج ملتا ہے وہ آشنا کی طرح
میری ہستی بھی ہو جائے گی جاوداں
دست قاتل اٹھا ہے دعا کی طرح
اس کے ہاتھوں پہ ہیں میرے خوں کے نشاں
جو مہکتے ہیں رنگ حنا کی طرح
جستجو ہے مجھے آج اس شخص کی
جو وفا بھی کرے بے وفا کی طرح
راہ منزل میں بیٹھو نہ یوں ہار کر
روندے جاؤ گے تم نقش پا کی طرح
کارواں کارواں پہنچے منزل پہ ہم
رہ بدلتی رہی رہ نما کی طرح

غزل
جس کو جانا تھا کل تک خدا کی طرح
شعلہ ہسپانوی