جس کو چاہا تھا نہ پایا جو نہ چاہا تھا ملا
بخششیں ہیں بے حساب اس کی ہمیں کیا کیا ملا
اجنبی چہروں میں پھر اک آشنا چہرا ملا
پھر مجھے اس کے تعلق سے پتا اپنا ملا
اس چمن میں پھول کی صورت رہا میں چاک دل
اس چمن میں شبنم آسا میں سدا پیاسا ملا
پھر قدم اٹھنے لگے ہیں شہر نا پرساں کی سمت
میرے پائے شوق کو تو ایک ہی رستہ ملا
دیکھ کر اس کو بھلا پھر کس کو دیکھا جائے ہے
مجمع اغیار میں بھی اس سے میں تنہا ملا
یوں ہوا رخصت رہی باقی نہ ملنے کی امید
یوں ملا وہ جیسے مدت کا کوئی بچھڑا ملا
غزل
جس کو چاہا تھا نہ پایا جو نہ چاہا تھا ملا
شاہد عشقی