جس کو بھی دیکھو ترے در کا پتہ پوچھتا ہے
قطرہ قطرے سے سمندر کا پتہ پوچھتا ہے
ڈھونڈتا رہتا ہوں آئینے میں اکثر خود کو
میرا باہر مرے اندر کا پتہ پوچھتا ہے
ختم ہوتے ہی نہیں سنگ کسی دن اس کے
روز وہ ایک نئے سر کا پتہ پوچھتا ہے
ڈھونڈتے رہتے ہیں سب لوگ لکیروں میں جسے
وہ مقدر بھی سکندر کا پتہ پوچھتا ہے
مسکراتے ہوئے میں بات بدل دیتا ہوں
جب کوئی مجھ سے مرے گھر کا پتہ پوچھتا ہے
در و دیوار ہیں میرے یہ غزل کے مصرعے
کیا سخن ور سے سخن ور کا پتہ پوچھتا ہے
غزل
جس کو بھی دیکھو ترے در کا پتہ پوچھتا ہے
راجیش ریڈی