EN हिंदी
جس کی طلب میں عمر کا سودا نہیں ہوا | شیح شیری
jis ki talab mein umr ka sauda nahin hua

غزل

جس کی طلب میں عمر کا سودا نہیں ہوا

ناہید قمر

;

جس کی طلب میں عمر کا سودا نہیں ہوا
اس خواب کا سراب بھی اپنا نہیں ہوا

اپنی صلیب سر پہ لیے چل رہے ہیں لوگ
شہر سزا میں کوئی کسی کا نہیں ہوا

کہنے کو جی سنبھل تو گیا ہے مگر کہیں
اک درد ہے کہ جس کا مداوا نہیں ہوا

اس نے مرے بغیر گزاری ہے زندگی
اس آگہی کا زہر گوارا نہیں ہوا

اب بھی ہے معتبر تو خدا کی عطا ہے یہ
ورنہ وفا کے نام پہ کیا کیا نہیں ہوا

اے حرف باریاب تری خیر پر وہ لوگ
جن پر در قبول کبھی وا نہیں ہوا