جس کی ہر بات میں قہقہہ جذب تھا میں نہ تھا دوستو
وہ جو ہنستا ہنساتا تھا اس شہر میں ہو لیا دوستو
ایک ایک کر کے اہل علم چل دیے شہر ویران ہے
ایک لے دے کے میں بچ رہا ہوں سو مجھ میں ہے کیا دوستو
ایک دو پھول تھے سکھ کے ٹہنی پہ سو وہ بھی مرجھا گئے
ورنہ اس پیڑ پہ ہر سمے ہر طرف رنگ تھا دوستو
با وفا مہرباں سب کے سب شہر سے ہو چکے تھے بدا
جب یہاں آئے تھے ہم وفا مہر کا کال تھا دوستو
ایک لمحے وہ مجھ پاس چپ چاپ سا بیٹھ کر اٹھ گیا
دل سے اٹھتا رہا مدتوں مدتوں شور سا دوستو
ہم ہوس کی طرح عشق کرتے رہے روح بھی جسم بھی
اپنی بیداریوں کا صلہ خواب ہی خواب تھا دوستو
یہ نہ ملنا بھی اک اور احسان ہے بے وفائی نہیں
حال دیکھا نہ جاتا تھا احباب سے اشکؔ کا دوستو
غزل
جس کی ہر بات میں قہقہہ جذب تھا میں نہ تھا دوستو
بمل کرشن اشک