جس کی آنکھوں میں کوئی رنگ شناسائی نہ تھا
اس سے ملنے کا مرا دل بھی تمنائی نہ تھا
ہم دیار غیر میں کہتے رہے ہیں دل کی بات
ایک اپنے شہر ہی میں اذن گویائی نہ تھا
جذبۂ دل کے بہک جانے سے رسوا ہو گئے
کوچۂ محبوب ورنہ کوئے رسوائی نہ تھا
ظلمت شب کو جہاں نور سحر کہتے تھے لوگ
میرا سچ کہنا سزاوار پذیرائی نہ تھا
داد بھی دیتا نہ تھا وہ میرے جذب شوق کی
خامشی آنکھوں میں لب پر حرف گویائی نہ تھا
تیری بے مہری نہ تھی کوتاہیٔ قسمت بھی تھی
کارزار دل میں ورنہ شوق پسپائی نہ تھا
میری اپنی ذات ہی اک انجمن سے کم نہ تھی
اس لیے سجادؔ مجھ کو خوف تنہائی نہ تھا

غزل
جس کی آنکھوں میں کوئی رنگ شناسائی نہ تھا
محمد سجاد مرزا