جس کے حسن کی شہرت مجھ پہ بار گزری تھی
آج پھر وہی لڑکی راہ روکے ٹھہری تھی
وہم کی نگاہوں نے کتنے حادثے دیکھے
خط پیش-منظر پر ایک کالی بلی تھی
سانپ سونگھ جاتا تھا جو اسے برتتا تھا
دیکھنے میں وہ عورت شہد کی کٹوری تھی
روح میں ابھرتی تھی تیرے قرب کی خواہش
میں نے اپنے ہونٹوں پہ تیری پیاس دیکھی تھی
حدتوں کی بارش میں سوکھتی تھیں شریانیں
چھاؤں کی طلب میرے صحن دل میں اگتی تھی
غزل
جس کے حسن کی شہرت مجھ پہ بار گزری تھی
نیاز حسین لکھویرا