جس کے ہم بیمار ہیں غم نے اسے بھی راندہ ہے
ہو چکا درماں مسیحا آپ ہی درماندہ ہے
جیتے جی کیا مر گئے پر بھی وبال دوش ہے
جو مری میت اٹھاتا ہے وہ دیتا کاندھا ہے
تا قیامت گردش تقدیر جانے کی نہیں
اپنی برگشتہ نصیبی نے وہ چرخا ناندہ ہے
ہے عیاں ہر شے سے دکھلائی نہیں دیتا مگر
واہ رے ڈھٹ بندی کیا سب کی نظر کو باندھا ہے
ہم ادھر بیتاب ادھر وہ برق وش بیتاب ہے
کوندتی بجلی کسی جانب لپکتا کاندہ ہے
اڑ گیا بک بک سے ہم نازک مزاجو کا دماغ
پند گو چپ رہ کہاں کا قصہ ناندہ ہے
ڈر نہیں بے ماترے اے شادؔ ہندی لفظ کا
اس غزل میں قافیہ دانستہ ہم نے باندھا ہے
غزل
جس کے ہم بیمار ہیں غم نے اسے بھی راندہ ہے
شاد لکھنوی