EN हिंदी
جس کے ہم بیمار ہیں غم نے اسے بھی راندہ ہے | شیح شیری
jis ke hum bimar hain gham ne use bhi randa hai

غزل

جس کے ہم بیمار ہیں غم نے اسے بھی راندہ ہے

شاد لکھنوی

;

جس کے ہم بیمار ہیں غم نے اسے بھی راندہ ہے
ہو چکا درماں مسیحا آپ ہی درماندہ ہے

جیتے جی کیا مر گئے پر بھی وبال دوش ہے
جو مری میت اٹھاتا ہے وہ دیتا کاندھا ہے

تا قیامت گردش تقدیر جانے کی نہیں
اپنی برگشتہ نصیبی نے وہ چرخا ناندہ ہے

ہے عیاں ہر شے سے دکھلائی نہیں دیتا مگر
واہ رے ڈھٹ بندی کیا سب کی نظر کو باندھا ہے

ہم ادھر بیتاب ادھر وہ برق وش بیتاب ہے
کوندتی بجلی کسی جانب لپکتا کاندہ ہے

اڑ گیا بک بک سے ہم نازک مزاجو کا دماغ
پند گو چپ رہ کہاں کا قصہ ناندہ ہے

ڈر نہیں بے ماترے اے شادؔ ہندی لفظ کا
اس غزل میں قافیہ دانستہ ہم نے باندھا ہے