EN हिंदी
جس کا بدن ہے خوشبو جیسا جس کی چال صبا سی ہے | شیح شیری
jis ka badan hai KHushbu jaisa jis ki chaal saba si hai

غزل

جس کا بدن ہے خوشبو جیسا جس کی چال صبا سی ہے

یوسف ظفر

;

جس کا بدن ہے خوشبو جیسا جس کی چال صبا سی ہے
اس کو دھیان میں لاؤں کیسے وہ سپنوں کا باسی ہے

پھولوں کے گجرے توڑ گئی آکاش پہ شام سلونی شام
وہ راجا خود کیسے ہوں گے جن کی یہ چنچل داسی ہے

کالی بدریا سیپ سیپ تو بوند بوند سے بھر جائے گا
دیکھ یہ بھوری مٹی تو بس میرے خون کی پیاسی ہے

جنگل میلے اور شہروں میں دھرا ہی کیا ہے میرے لیے
جگ جگ جس نے ساتھ دیا ہے وہ تو میری اداسی ہے

لوٹ کے اس نے پھر نہیں دیکھا جس کے لیے ہم جیتے ہیں
دل کا بجھانا اک اندھیر ہے یوں تو بات ذرا سی ہے

چاند نگر سے آنے والی مٹی کنکر رول کے لائے
دھرتی ماں چپ ہے جیسے کچھ سوچ رہی ہو خفا سی ہے

ہر رات اس کی باتیں سن کر تجھ کو نیند آتی ہے ظفرؔ
ہر رات اسی کی باتیں چھیڑیں یہ تو عجب بپتا سی ہے